Friday, June 26, 2009

امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

آپ کی ولادت 93ھ میں ہوئی ، آپ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے 13سال چھوٹے تھے ، آپ کے بارے میں یہ تحقیق علامہ ابن حجر امام اعظم کے تلمیذ نے لکھی ہے ۔ ( انوار الباری جلد1 ، ص129)
آپ نے 9 سو نے زائد شیوخ علم حاصل کیا۔
آپ مدینہ المنورہ میں جس مکان میں رہتے تھے وہ مکان حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابی کا تھا ، آپ مسجد نبوی شریف میں وہاں بیٹھتے تھے جہاں اعتکاف کے وقت حضور سرور عالم صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا بستر بچھایا جاتا تھا ۔
آپ علم دین کی طلب میں سرمایہ کی کمی کی وجہ مکان کی چھت توڑ کر کڑیوں کو فروخت کرکے کتب خریدتے تھے ۔
آپ نے سترہ سال کی عمر میں درس دینا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کا حلقہ درس اپنے مشائخ سے بڑھ گیا تھا ۔
آپ احادیث رسول صل اللہ علیہ وسلم کو سنانے میں اس قدر ادب فرماتے کہ اگر کوئی حدیث سننا چاہتا تو آپ پہلے غسل فرماتے ، نئے کپڑے پہنتے ، عمامہ باندھتے ، خوشبو لگاتے ، پھر ادب سے بیٹھ کر حدیث پاک سناتے ۔
آپ قضاء حاجت کے لئے حدود حرم سے باہر تشریف لے جاتے ۔
آپ باوجود کمزوری اور کبر سنی کے مدینہ طیبہ میں سواری پرکبھی سوار نہ ہوتے اس لئے کہ فرماتے کہ جس ارض مقدس کے اندر جسم مبارک رسول صل اللہ علیہ وسلم ہو ، اس کے اوپر سوار ہو کر چلنا خلاف ادب ہے ۔
آپ کی مشہور و معروف تصنیف مؤطا ہے ، جو بعض محدثین کے نزدیک بخاری شریف سے بھی اصح ہے۔
آپ کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے ، امام محمد و امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنھما آپ کے تلامذہ میں سے ہیں ۔
آپ کی وفات بعمر 86 سال 179ھ میں مدینہ پاک میں ہوئی ، اور آپ کا مزار مبارک جنت البقیع میں ہے ۔
امام مالک کا فیصلہ !
علامہ قاضی عیاض ناقل ہیں کہ خلیفئہ بغداد خلیفہ منصور مسجد نبوی میں حاضر ہوا اور حضرت امام مالک سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی آواز کچھ بلند ہوگئی تو حضرت امام مالک نے ڈانٹ کر فرمایا کہ اے امیر المؤمنین !
خداوند عالم جل جلالہ کا فرمان ہے کہ ۔
لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ۔ ( پ 26 الحجرات آیت2)
ترجمہ ، اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی ) کی آواز سے ۔( کنز الایمان )
اے امیر المؤمنین ! حضور علیہ الصلواۃ والسلام کا ادب و احترام اب بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ظاہری حیات مبارکہ میں تھا اس لئے قبر انور کے پاس خبردار ہرگز بلند آواز سے گفتگو نہ کیجئے ، امام ممدوح کی ڈانٹ سن کر خلیفہ منصور بالکل خاموش ہوگیا پھر نہایت ہی پست آواز سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ اے مالک میں حضور علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ میں سلام عرض کر چکا اب میں قبر انور ہی کی طرف اپنا رخ کرکے دعا کروں ۔ حضرت امام مالک نے جواب دیا تم اپنا چہرہ حضور علیہ الصلواۃ والسلام سے کیوں اور کس طرح پھیرو گے ؟ جب کہ وہ بارگاہ خداوندی میں تمہارا اور تمہارے باپ آدم علیہ الصلواۃ والسلام کا بھی وسیلہ ہیں ، تم حضور علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف منہ کرکے خدا سے دعا مانگو ، اور ان کو بارگاہ الہٰی میں اپنا شفیع بناؤ تو خداوند کریم ان کے وسیلہ سے تمہاری دعاؤں کو قبول فرمائے گا ۔ خداوند قدوس کے اس پیغام کو یاد رکھو کہ
ولو انہم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفرو اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما۔ ( پ5 النساء آیت 64)
ترجمہ !
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں ، تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں ، اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ، اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ ( کنز الایمان)
وفاء الوفا ج4 ص1376)

__________________

0 comments: